مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، خانہ فرہنگ ایران لاہور کے زیراہتمام حضرت امام خمینی رحمتہ اللہ علیہ کی 34 ویں برسی پر خصوصی سیمنار کا اہتمام کیا گیا۔ تقریب میں ڈی جی خانہ فرہنگ ایران لاہور جعفر روناس، ایرانی قونصل جنرل مہران موحد فر، علامہ محمد حسین اکبر ممبر اسلامی نظریاتی کونسل، علامہ سبطین سبزواری مرکزی نائب صدر شیعہ علماء کونسل پاکستان، ملک پرویز اکبر ساقی چیئرمین تحریک وحدت اسلامی پاکستان، خواجہ معین الدین محبوب کوریجہ سجادہ نشین کوٹ مٹھن شریف، ڈاکٹر فرید احمد پراچہ مرکزی رہنما جماعت اسلامی پاکستان، میاں جلیل احمد شرقپوری سجادہ نشین شرقپور شریف، علامہ محمد خان لغاری، مرکزی رہنما جمعیت علمائے پاکستان، علامہ سید علی رضا نقوی، پیر سید علی رضا گیلانی سجادہ نشین حضرت میاں میرؒ، مفتی محمد شبیر انجم مدنی، سید محمود غزنوی مرکزی صدر قومی امن کمیٹی پاکستان، پیر اختر رسول قادری، علامہ محمد حسین گولڑوی، علامہ عبدالمصطفی چشتی، حافظ کاظم نقوی، قاسم علی قاسمی، سردار مراد علی خان، لعل مہدی خان، امیر عباس مرزا، حنیف قمر، سید علی رضا کاظمی، قاری خالد محمود، مفتی لیاقت علی صدیقی، علامہ عطا محمد گولڑوی، علامہ یار محمد ظہوری، علامہ اعجاز محبوب رضوی، جمیل خان، ملک طاہر عباس اور پیر سید محمد شاہ ہمدانی سجادہ نشین دنداں شاہ بلاول نے شرکت کی۔
مقررین نے امام خمینیؒ کی انقلاب اسلامی ایران اور اسلام کیلئے خدمات کو سراہا۔ انہوں نے کہا کہ امام خمینی علیہ الرحمہ کی شخصیت اعلم فقیہ، واصل عارف اور با بصیرت راہبر جیسی صفات کی حامل ہے، ایران کی سرزمین پر دو ہزار پانچ سو سالہ پرانی شہنشاہیت کو شکست دینے کے بعد شرق و غرب کی سپر پاورز کا سامنا کرنے والی شخصیت ہے۔ انہوں نے کہا کہ امام خمینی فولادی ارادے کے مالک تھے اور بقول آیت اللہ سید علی خامنہ ای کے اگر دنیا میں کہیں بھی انقلاب اسلامی کا نام لیا جائے تو وہ امام خمینی کے نام کے بغیر شناختہ شدہ نہیں۔
مقررین کا کہنا تھا کہ دنیا میں بھی کوئی یہ تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ کوئی ایسی تحریک بھی ہو سکتی ہے کہ جو نہ سوشلسٹ بلاک سے وابستہ ہو اور نہ امریکن بلاک سے۔ اس فضا میں انقلاب اسلامی "لاشرقیہ و لا غربیہ" کے شعار کبساتھ اپنی کامیابی کو پہنچ رہا تھا جس سے ان دونوں بلاکس نے خطرے کا احساس کیا اور اس ننھی سے شمع کو خاموش کرنے کیلئے پوری دنیا کی طاقتیں عراق کے مغرور ڈکٹیٹر صدام حسین کی پشت پر کھڑی ہو گئیں، لیکن ان کو کیا علم تھا کہ" وہ شمع کیا بجھے جسے روشن خدا کرے"۔
آپ کا تبصرہ